چھوڑا، مہِ نخشب کی طرح، دستِ قضا نے
خورشید، ہنوز، اس کے برابر نہ ہوا تھا
توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ، ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا
میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں
یعنی، سبقِ شوق، مکرّر نہ ہوا تھا
جب تک کہ نہ دیکھا تھا، قدِ یار کا عالم
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
دریائے معاصی، تُنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی، ابھی تر نہ ہوا تھا
Similar Threads:
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks